تیری بیوفائی کے خیال آنے لگے
تم پھر سے دل کو ستانے لگے
تم سے کیا کریں گلہ بےوفائی کا
تم تو مجھے دوشی ٹھہرانے لگے
تھے ہم تمھارے حبیب کبھی
اب کیوں ہم تمھیں بیگانے لگے
کھل گیا ہے رستہ تیری گلی کا
تمھیں دیکھنے لوگ ادھر آنے لگے
کہیں کس کو اپنا حال دل یہاں
شہر کے لوگ مجھے دیوانے لگے