مدت ہوئی نشاط کو ہم سے ملے ہوئے
مجبوریوں کی ڈور سے لب ہیں سلے ہوئے
تیری مہک سے آج بھی سانسیں ہیں مشکبار
تیری حسین یادوں کے گل ہیں کھلے ہوئے
ہم نے وفا کی راہ تو چھوڑی نہیں کبھی
اس راہ سے تمھارے قدم ہیں ہلے ہوئے
رکھیے تو دوستانہ مراسم بھی کس طرح
جب بھی ملے ہیں دونوں میں شکوے گلے ہوئے
تم سے نہیں ہے آس مسیحائی کی ہمیں
یہ زخم ہیں تمھارے ہی ہاتھوں چھلے ہوئے
قربت ہماری جیسے زمیں اور آسماں
آتے ہیں دور ہی سے نظر جو ملے ہوئے
اب تو سنا ہے یاد بھی کرتے نہیں ہمیں
گویا کہ ختم پیار کے سب سلسلے ہوئے