تیری راہوں میں آج بھی وہیں کھڑا ہوں
تیرا انتظار کئی جنموں سے کرتا آ رہا ہوں
نہ جانے اِس جنم میں ملوں گا یا اگلے جنم میں
خُدا سے بس یہی سوال پُوچھتا رہتا ہوں
وہ خامُوش رہا وہ خامُوش دریا ہے
پر تیری خامُوشی کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں
ریت پر نام لکھتا ہوں اور اشکوں سے بہا دیتا ہوں
کب سجھو گے تم مجھے اِس آس پر جیۓ جا رہا ہوں
وہ تو ہمارے ساتھ روز نیا ایک وعدہ کر لیتے ہیں
پر کوئی وعدہ جو نھبا سکو اُس وعدے کا انتظار کر رہا ہوں
وہی چہرہ جیسے دیکھنے کی عادت لوگ ڈالتے ہیں مسعود
ہر گلی ہر مُوڑ ہر شخص میں آج اُس کا چہرہ ڈھُونڈ رہا ہوں