زندگی اندھیروں میں کہی گم ہو رہی، روشنی کی ذرا طلب سی ہے
اِس بے رنگ سی تصویر کو رنگ کی ذرا طلب سی ہے
کِن لفظوں سے یاد کروں تمہیں ، الفاظ کی ذرا طلب سی ہے
دل نے جلایا تھا اِک پیار کا دِیا، اِس دیے کو شعلے کی ذرا طلب سی ہے
گونجتی ہیں خاموشیاں میرے کانوں میں، سر سراہٹ کی ذرا طلب سی ہے
جِس سوچ میں کھو گیا ہوں میں، ہوش کی ذرا طلب سی ہے
بیٹھا ہوں پیاسا ساحل کِنارے، لہروں کی ذرا طلب سی ہے