تیری غفلتوں کو خبر نہیں
میری زندگی کا سوال ہے
تجھے دیکھے بن جو جی لیے
انہی لمحوں کا ملال ہے
تیرے لمس کی ہے آرزو
تیری دید کی ہے تشنگی
کبھی کہیں سے تو آ کے مل مجھے
ابھی ملنے کا جواز ہے
کوئی گیت ایسا گنگنا
کوئی راگ ایسا چھیڑ دے
میری روح کے تار کو دیکھنا
تیری سر کا اب کمال ہے
تو جو بچھڑ گیا مجھے غم نہیں
تو ملا نہیں یہ ستم نہیں
میں جو جی رہا ہوں ابھی تلک
یہ سوچنا ہی محال ہے
اب لوٹ بھی آؤ کہ تیرے بن
کوئی خوشی نہ مجھ کو راس ہے
آہ! کاش میں بھی کہہ سکوں
آج مریض عشق بحال ہے
آج مریض عشق بحال ہے