تیری محفل میں جو یہ آبلہ پا بیٹھے ہیں
دُور سے آئے ہیں، چشمِ براہ بیٹھے ہیں
اک خلش ہے دل میں جو سونے نہیں دیتی
ہم جاگتی آنکھوں اک عمر بتا بیٹھے ہیں
زندگی جن کے لئے اک تماشہ بن گئی اپنی
آج وہی لوگ ہم سے ہی خفا بیٹھے ہیں
شمع آنسو نہ بہاتی رات بھر تو کیا کرتی
حالِ دل جو اُسے اپنا ہم سنا بیٹھے ہیں
آنکھوں میں بسے ہیں انتظار کے جگنو
کسی اجنبی سے شائد دل لگا بیٹھے ہیں
زمیں پاؤں تلے ہے نہ سر پہ سائباں رہا
اس محبت کے لیے کیا کچھ گنوا بیٹھے ہیں
کوئی تو ہو رضا جو داد ِ سُخن دے ہم کو
بھری محفل میں آج پھر بےنوا بیٹھے ہیں