زندگی کی حقیقت پلٹ آئی ہو جیسے
اک اندھیری رات بھٹک آئی ہو جیسے
گمراہ راستوں پر گمراہ چاہتوں کی
اک مدھم سی جھلک سمٹ آئی ہو جیسے
درد آ س لگائے بیٹھا ہے دل میں سما جانے کی
کوئ گمنام ہوا اسے کھینچ لائی ہو جیسے
نمی بسی ہے نگاہوں میں یوں شبنم کی طرح
قافلوں پر کسی سیلاب کی رونمائی ہو جیسے
خیمے بھی یکسر ہیں خیاباں بھی یکسر
فضا میں کوئ دھند نما شے سمائی ہوجیسے
منزلیں راہ میں خود ہی الجھ گئی آخر
نا مرادگی ہی میری رسائی ہو جیسے
شام ڈھلتی ہے تیرے آ نچل میں یوں بے سبب
تاریکی سے تیری خوب آ شنائی ہو جیسے
فلک سجدے میں پڑا رہا صدیوں نادم
مدتوں بعد اسے بندگی یاد آئی ہو جیسے
تیری عدالت ظلم میں اے دلِ عادل
زندگی محض موت کی ہرجائی ہو جیسے
پتھر بن بیٹھا ہے یہ شہرِ دل
ہر دل سے ہی دل کی لڑائی ہو جیسے