تیری یاد میں اب غزل نہیں کہتے
کہیں عام نہ ہو رسوائی نہ ہو
خاموش ہیں اسقدر جتلاتے نہیں
اک حرف پہ ناراض کہیں خدائی نہ ہو
چاک وقت سی ہی دے زخموں کے
ساتھ میرے اگر تنہائی نہ ہو
اس جگہ بچھڑے زمانہ گزرا ہے
اکثر وھم ہوتا ہے کہ تم آئی نہ ہو
حرف دعا یاد ہیں ابتک مگر
ممکن ہے عرش تک شنوائ نہ ہو
سنا ہے وہ شوخی وہ بانکپن نہیں رھا
دل یہ کہتا ہے کسی نے اڑائی نہ ہو