پیاسا جیون تپتی راھیں
خاموشی کو ڈستی آھیں
ظلم کی چکّی پستے انساں
ظالم انساں ھنستے انساں
سُوجھ بُوجھ سے خالی سوچیں
دُھند میں گُم متلاشی نظریں
تار تار سروں کی چادر
بھوک کے ھاتھوں بکتے انساں
کسی کا جیون اِک لمحہ سا
رات کسی کی ایک صدی سی
کسی کی قسمت مانگ ستارے
خون کےچھینٹے کسی کی مہندی
ھونٹوں پر مسکان کی کرچیں
گالوں پر برفانی آنسو
نیند خواب میں بسی حقیقت
جاگتی آنکھوں سُندر سپنا
پہچانی آنکھوں کے اندر
انجانا سا خوف ہے ہر دم
اندھیارا چھٹنے سے پہلے
اک اندھیارا اور مُسّلط
رات کی چھائی دیکھ حکومت
خود کو رات کا عادی کر لیں
پل دو پل جینے کی خاطر
نعش کا رُوپ بہروپ بنا لیں
یاس میں ڈُوبی جلتی سانسیں
پیاسا جیون تپتی راھیں
تیرے خیال کی خوشبو ٹھنڈک
تیری یاد کا آنچل سایہ