راحت کیوں نہیں ملتی چین کیوں نہیں آتا
اس بیقراری کو آخر قرار کیوں نہیں آتا
خوشبو کم نہ ھو تیرے وجود کی میرے اندر
تیرے بغیر میرے دل کو چین کیوں نہیں آتا
تنہا تھا اور تنہا ھی رھا تیرے بناُ میں بہت
الفت رھتی ھے تجھ سے بہت تو ہی نہیں آتا
خاموشی میں بیٹھے جو تیری یاد آستاتی ھے مجھے
لکھتا رھتا ھوں خط تجھے مگر کوںُی جواب نہیں آتا
آنکھیں تھک گیُں تیری راہ کو دیکھ دیکھ کر بہت
سب گزر جاتے ھیں مگر تو ھی نہیں آتا
بنا دیا ھے درویش تیری یادوں نے مجھے
پھر بھی تجھے اس بات کا یقین نہیں آتا