تیرے بغیر زندگی گر میں گزار دوں
قلب و جگر کو موت سے پہلے ہی مار دوں
کیا چاہتے ہو اپنی عنایت کا یہ صلہ
گلزار کے عوض میں تمھیں ریگزار دوں
قسمت ہماری دیکھ کے مالک نے یہ کہا
دشت و دمن کو کیسے کوئی برگ و بار دوں
زلفوں سے تیری باندھ کے بے چین روح کو
زندانِ اضطراب میں دل کو قرار دوں
مرجھا گیا ہے کیوں یہ ترا پھول سا بدن
آجا کہ تجھ کو اپنے لہو سے نکھار دوں
تیرے لبوں کے آب میں ڈوبا رہے وجود
کوثر تری نگاہ کے ساغر پہ وار دوں
سرمایہء حیات وہ ساتھ اپنے لے گیا
میری شریکِ زیست تجھے کیسے پیار دوں
کیوں میری زندگی سے ہے معدوم روشنی
شمس و قمر کو منصبِ ضو سے اتار دوں
کیا مجھ سے مانگتے ہو مری عمر کا حساب
کشکول ہے متاع کہو تو ادھار دوں