تیرے شہر میں غم کے پہرے ہیں جا بجا
پھر بھی تیری گلی میں ٹہرے ہیں جا بجا
کیسی چلی ہے رسم نبھاتے ہیں دشمنی
اب دوستی کے نام پے لٹیرے ہیں جا بجا
کیسے ملے سکوں کہ ہواؤں میں شور ہے
یوں موسموں میں شامل اندھیرے ہیں جا بجا
کس آستیں پے دیکھوں اپنے لہو کا رنگ
سب منصفوں کے اپنے کٹہرے ہیں جا بجا