تیرے عشق میں نجانے کتنے غم ملے
جو چراغ بجھ چکے تھے وہ بھی پرنم ملے
اپنی خطاؤں پہ ہم حیران رہ گئے
بے وجہ العظام قدم قدم ملے
تیری محفل میں جو پہنچے مسکراتے
تیرے چاہنے والے ہم سے برہم ملے
آنسو چھلکے جو تیری آنکھوں سے
جیسے کسی گلاب پہ شبنم ملے
اور تو کچھ نہ مل سکا مگرجاناں
تیری بے وفائی سے گہرے زخم ملے
زندگی آسان بھی ہو سکتی تھی
مگر ہمیں سب پتھر کے صنم ملے