تیرے ہونٹوں سے جب ادا ہُوا مَیں
کیا کہوں سرخوشی سے کیا ہُوا مَیں
چل رہی تھی تو سب مسافر تھے
نائو ڈوبی تو ناخدا ہُوا مَیں
جانے کس دیس جا نکلتا ہوں
تیرے بارے میں سوچتا ہُوا مَیں
جتنا چاہے گریز کر مجھ سے
تیرے ماتھے پہ ہوں لِکھا ہُوا مَیں
کوئی تِتلی اِدھر نہیں آتی
باغ سے دُور ہوں کھِلا ہُوا مَیں
خرچ کر یا مجھے بچا کے رکھ
جا تجھے کہہ دیا ترا ہُوا مَیں
مجھے بچہ سمجھتی ہے اب تک
ماں کے آگے کہاں بڑا ہُوا مَیں