اے میرے چاہنے والے
مجھ سے بات تو کر دیکھ کہاں سے آیا ہوں
دیکھ سناٹا ہے چاروں جانب اور ہوا کی سرگوشی میں
اور ٹوٹے ٹوٹے سے کچھ جملے ہیں میرے پاس
رات گئے تک ہونے والی بارش کے قطروں کی
صورت ٹپک رہے ہیں
تین برس اور سولہ دن پہلے کی گزری ہوئی شام
کوئی یہیں کہیں پہ رکی ہوئی ہے
اور ایک گہرے سایوں والے پیڑ پہ
اب بھی ہم دونوں کے نام کھدے ہیں
اے میرے چاہنے والے
تیرے سامنے اس دن ہم نے کتنی باتیں کی تھیں
تجھ کو بھی وہ یاد تو ہوں گی
سب نہ سہی پر تھوڑی تھوڑی
یہ جو ہوا کی سرگوشی ہے اس کے ٹوٹے جملوں جیسی ہے
ابھی ابھی اس تھمنے والی بارش کے ان قطروں جیسی ہے
تین برس اور سولہ دن کا ایک ایک لمحہ لایا ہوں
جنگل مجھ سے بات تو کر
دیکھ کہاں سے آیا ہوں میں
میرے چاہنے والے مجھ سے بات تو کر
تین سال اور سولا دن کی گزری شام لایا ہوں
تین برس اور سولا دن کے گزرے لمحے لایا ہوں