تیور بدلنے لگے

Poet: Muhammad Shariq By: Muhammad Shariq, Karachi

آئینوں کے تیور بدلنے لگے
کیا وہ پھر سے سنورنے لگے

در یاد پھر سے وا ہوا
زخم فرقت پھر سے بھرنے لگے

آزمائش میں پڑ گیا زمانہ
ارادے ان کے جو بدلنے لگے

عشق جز وقتی شے تو نہیں
پھر کیوں خیالات بھٹکنے لگے

وقت کی گھمبیرتا کیا کہیے
کون کس قالب میں ڈھلنے لگے

ان کی نظروں کا ملنا شارق
افکار سارے بکھرنے لگے

Rate it:
Views: 666
28 Jan, 2014