آئینوں کے تیور بدلنے لگے
کیا وہ پھر سے سنورنے لگے
در یاد پھر سے وا ہوا
زخم فرقت پھر سے بھرنے لگے
آزمائش میں پڑ گیا زمانہ
ارادے ان کے جو بدلنے لگے
عشق جز وقتی شے تو نہیں
پھر کیوں خیالات بھٹکنے لگے
وقت کی گھمبیرتا کیا کہیے
کون کس قالب میں ڈھلنے لگے
ان کی نظروں کا ملنا شارق
افکار سارے بکھرنے لگے