جاتا ہے بھرم زیست کا اے دیدہ تر جائے
موتی کی طرح برگ پہ شبنم تو نکھر جائے
لمحوں کے تسلسل سے ہے حرکت کا تسلسل
لمحے جو ٹھہر جائیں تو حرکت بھی ٹھہر جائے
اس طفل کی مانند ہوئی جاتی ہے ہستی
جو طفل کہ ہر خواب سے ہر بات سے ڈر جائے
بڑھتی ہے تھکن اور بھی احساس سفر سے
آرام سفر آئے جب احساس سفر جائے
یوں دیر تلک ساحل دریا پہ نہ بیٹھے
شاعر سے کہو شام ہوئی جاتی ہے گھر جائے