جاتے جاتے پکار جاتا ہے وہ
اپنا ضرور کر وار جاتا ہے وہ
آنکھیں چراتے چراتے بھی کمبخت
آنکھیں کر دو چار جاتا ہے وہ
جہاں کا جھوٹا پر ہے ہنر مند
وعدوں کا کر بھرمار جاتا ہے وہ
حد میں رہے تو اچھا ہے دل
جنوں میں کر حد پار جاتا ہے وہ
علی کم گو ہیں ہم پر اسے بھی نہیں
پتھروں میں کر شمار جاتا ہے وہ