تیرے شہر میں اتنی سردی ہے ظالم
مرے آنسوں میری آنکھوں میں جمے جاتے ہیں
جو شکوے آنکھ سے ہوجائیں ظاہر
وہ پھر کب منہ سے کہے جاتے ہیں
اتنی جلدی نہ اٹھا مجھ کو جگانے والے
میرے کچھ خواب ادھورے سے رہے جاتے ہیں
کبھی خوشیوں کی تمنا نہیں پالی ہم نے
غم کے ریلے میں چپ چاپ بہے جاتے ہیں
کسی خاموش عبارت ہے تیری آنکھوں میں
جن کے الفاظ ترے چہرے سے پڑھے جاتے ہیں
اپنی باتوں سے مجھے خوف خود بھی آتا ہے
وہ ایسے سچ ہیں جو منہ پہ کہے جاتے ہیں
جو بھی غم دیا آپ نے سر آنکھوں پہ
سمجھ کے ان کو مقدر، سہے جاتے ہیں
کھو کے پچھتاؤ گے ہمیں سن لو
جاتے جاتے یہ بات کہے جاتے ہیں