ایک خوشبو میں کئی جادو کہاں سے آ گئے
اک ادا میں اَن گنت پہلو کہاں سے آ گئے
ہم تو نکلے تھے کسی دار و رسن کی چاہ میں
پیشوائی کو قد و گیسو کہاں سے آ گئے
ہم افق پر دیکھتے تھے جلوہ ہائے نو بہ نو
اس جھروکے میں خمِ ابرو کہاں سے آ گئے
چشمِ ساقی مہرباں ہے لطفِ ساقی بیکراں
پھر یہ میری آنکھ میں آنسو کہاں سے آ گئے