جال دیا جاتا ہے
Poet: رشید حسرتؔ By: رشید حسرتؔ, Quettaروز جھنجھٹ میں نئی ڈال دیا جاتا ہے
کس مہارت سے مجھے ٹال دیا جاتا ہے
کیوں قطاروں میں رہیں کاسہ گدائی کا لیئے
روند کے پھول بھی پامال دیا جاتا ہے
ہم سے کہتے ہیں کہ ہشیار ذرا رہیے گا
اور صیّاد کو بھی جال دیا جاتا ہے
کھول کر حسن کا صفحہ وہ ترے رکھتا ہے
اور قصّے کو بھی اجمال دیا جاتا ہے
دل یہ بن باپ کے ہو جیسے یتیم اے لوگو
گھر میں جو غیر کے بھی پال دیا جاتا ہے
پیار کرنے کو میسّر ہے گھڑی دو لیکن
درد، سہنے کو کئی سال دیا جاتا ہے
علم اپنا نہیں اوروں کی بتانے کے لیئے
قسمتوں کا بھی یہاں فال دیا جاتا ہے
تو نے تو مجھ کو دیا خام مگر ظرف مرا
پھل تجھے میٹھا بھی اور لال دیا جاتا ہے
یہ بلوچی کی روایات میں شامل ہے رشیدؔ
پوچھا کرتے بھی ہیں، اور حال دیا جاتا ہے
More Sad Poetry






