جان ترے وصال کا لب سے سوال بھی گیا
بچھڑا تھا اس ادا سے وہ اس کا ملال بھی گیا
کارِ وفا شعار تھا، سو تھا کسی زمانے میں
اب تو یہ حال ہے مرا اُس کا خیال بھی گیا
بھولنا تجھ کو میری جاں گو کہ کبھی محال تھا
جب وہ گماں رہا نہیں تب وہ محال بھی گیا
ہوش و ہوس تبہ ہوئے جان ترے گمان میں
اپنا زوال بھی گیا اپنا کمال بھی گیا۔
اپنا حسابِ زندگی کیسے کروں بتا مجھے
تیرا فراق بھی گیا تیرا وصال بھی گیا
تجھ سے بچھڑ کہ میری جاں چین قرار سب گیا
جانیے کیا سہا گیا زورِ سوال بھی گیا
شوقِ فدائی ہی وہ تھا جس نے کیا تبہ مجھے
نبض جنون ڈوبتے ہی میرا حال بھی گیا