جان سے اَپنی جب گزرتا ہے
پھول خوشبو سے تب بچھڑتا ہے
تتلی اَندر سے ٹُوٹ جاتی ہے
پھول جب ٹُوٹ کر بکھرتا ہے
غم سے جب دِل کا ظرف بھر جائے
دیپ اِک آنکھ میں اُبھرتا ہے
اِک صَفِ غم ہے دائمی دِل میں
روز اَندر سے کوئی مرتا ہے
روتے روتے جہاں میں آیا ہُوا!۔
جانے کے نام سے بھی ڈرتا ہے
موت ہے دُوسرے جہاں کی حیات
آدمی صرف پار اُترتا ہے
نام لیتی ہے آپ کا دَھڑکن
دِل تو پھر مر کے ہی ٹھہرتا ہے
وُہ کبھی آئینے میں جھانکیں تو
آئینہ دیکھ کر سنورتا ہے
عشق والوں کو نہ کرو رُسوا
عشق رُسوائیوں سے بڑھتا ہے
لیلیٰ کو دیکھ لو ، تو سمجھو گے!۔
قیس کیوں ’’لیلیٰ لیلیٰ‘‘ کرتا ہے