جانتا ہوں کہ محبت کا غم ہوتا بہت ہے
کیا کروں اب یہ لفظ بھی رُسوا بہت ہے
ہم اب اداسی کے سبب میں کیا بتائیں
معلوم گلی کوچوں میں سناٹا بہت ہے
نہ ملنے کی قسم کھا کے بھی میں نے
تجھے ہر راہ میں ڈوھنڈا بھی بہت ہے
اب یہ آنکھیں اور کیا دیکھیں کسی کو
میری آنکھوں نے تجھے دیکھا بہت ہے
میں نے جانے کیوں بچا رکھے ہیں آنسو
لگتا ہے کہ اب شاہد مجھے رونا بہت ہے
تجھے بھی معلوم تو ہو گا اے میرے ہمدم
تجھے بھی ایک شخص نے چاہا بہت ہے