ناقد نے لغات کھول لی ہے
یوُں قدر ہوُئی مِرے ہُنر کی
بحر و صحرا ہوں کہ سیاّرے ہوں یا فلاک ہوں
ہر ورق پر ایک ہی اسلوُب ہے تحریر کا
جانے، کس کرب سے تپتی ہیں زمینیں اپنی
اب تو سجدوں میں بھی جلتی ہیںجبینیں اپنی
تاریخ بکف ہے ذرّہ ذرّہ
صحرا میں کسے کسے صدا دُوں
یہ نکتہ، ہر حقیقت کی ہے بنیاد
کہ جو موجوُد ہے مبہم نہیں ہے