جانے کیسی بادلوں کے درمیاں سازش ہوئی
میرا گھر مٹی کا تھا میرے ہی گھر بارش ہوئی
دہمکیٔ اوراق میں کل شب جو اس کا خط ملا
ننگے پاؤں گھاس پر چلنےکی پھر خواہش ہوئی
جن کی بنیادیں ہی اپنے پاؤں پر گرنے کو تھیں
ان گھروں کی ریشمی پردوں سے آرائش ہوئی
میرے خوں کا ذائقہ جب دوستوں نے چکھ لیا
جسم کے پھر ایک ایک قطرے کی فرمائش ہوئی