جب بھی تجھ کو یاد کیا
اپنے جیون کو ناشاد کیا
دل کی بستی اُجڑی تو
درد سے اُس کو آباد کیا
عداوت میں ہم ناکام رہے
محبت نے ہم کو برباد کیا
خود ہی اپنا چین لُٹا کر
کرنا تقدیر سے فریاد کیا؟
ڈور سانسوں کی، زنجیر تھی
اِک ہچکی نے ہم کو آزاد کیا
وہ رُوٹھ کے خود ہی لوٹ آیا
جب ستم نیا کوئی ایجاد کیا
عشق و عقل دونوں میں رعنا
میں نے قائم اِک الحاد کیا