جب بھی درویشی دل کا مراقبہ ٹوٹتا ہے
آرزو کا جنگلی کانٹا نرم گھاس پر اگتا ہے
خورشید چمکتا تو ہے صحن چمن میں بھرپور
مگر کبھی کبھی آگے سے گہرا بادل گزرتا ہے
ربط جب ٹوٹتا ہے اپنے اصل مرکز سے
ہلاکو کا لشکر بغداد شہر کو روندتا ہے
یہ گردش جہاں اصل روح ہے کائنات کی
دیکھئے خدا کب اس روح کو کھینچتا ہے
چلو گے جتنا بھی زمیں پر اسی میں دھنس جاؤ گے
صرف کمال عشق ہے کہ ثریا تک پہنچتا ہے
سورج کا نور جب چھلکتا ہے کھڑکیوں سے
اندھیرا خود بخود کونوں میں چھپتا ہے
باتوں میں درویش کی ہوتا ہے اثر اتنا
کہ سینہ سنگ سے بھی جھرنا پھوٹتا ہے
بڑے جہاز ڈوب جاتے ہیں سمندر کی طے میں
اک ننھا سا تنکا بھلا کبھی ڈوبتا ہے
آتش ہے کہ جلا ڈالتی ہے ہر چیز کو
مگر خلیل الله سا ایمان کہاں جلتا ہے
مچھلی نگل لے جس چیز کو وہ نوالہ بن جائے
قدرت الہی سے یونس کیسے زندہ نکلتا ہے
گستاخ و سرکش عبرت بنتا ہے دنیا کیلئے
فرعون کا جسم قیامت تک مثال بنتا ہے
ہوائیں جب چلتی ہیں صحراؤں پر
ریت کا سمندر بھی ساتھ ساتھ چلتا ہے
یہ بحر ظلمت منتظر ہے ایسی طغیانی کا
سونامی جس کے آگے پانی بھرتا ہے
شہیدوں کی قربانی کبھی رائیگاں نہیں جاتی
روز شفق میں خون شہدا کا رنگ جھلکتا ہے
ازل سے موج در موج چلتا رہتا ہے
یہ دریا زندگی کا ساگر میں گرتا ہے