جب بھی ملتے ہیں وہ جینے کی دعا دیتے ہیں
مجھ کو دشمن بھی سلیقے سے سزا دیتے ہیں
تو نہیں تو نہ سہی دل کو جلا کر اکثر
تیری یادوں کے چراغوں کو زِیا دیتے ہیں
تیرے رخسار پے الجھے ہوئے گیسوں جاناں
تیرے چہرے کی چمک اور بڑھا دیتے ہیں
بس بہت ہوچکی باتیں لب و رخسار کی اب
آ غزل تجھ کو کوئی رنگ نیا دیتے ہیں
ان سے ملیے کے یہ بےدرد زمانے والے
غم کے بجھتے ہوئے شعلوں کو ہوا دیتے ہیں
سارے عالم میں فسادات مچانے والے
پیار کی امن کی خوشیوں کی صدا دیتے ہیں