جب تِیر چل گیا، تو کماں بھی نہیں رہی
لگتا تھا جیسے جسم میں جاں بھی نہیں رہی
سارے حَسِین بیچتے پِھرتے ہیں شہر میں
جنسِ وفا، اب ایسی گراں بھی نہیں رہی
وہ مسکرا کے پوچھتے تھے مُدعائے دل
اور اپنے منہ میں جیسے زباں بھی نہیں رہی
خواہش، وصالِ یار کی، زندہ ہے آج بھی
لیکن، یہ پہلے جیسی جواں بھی نہیں رہی
اُس سے بچھڑ کے آئینہ دیکھا تو یوں لگا
ہاتھوں میں اپنے عمرِ رواں بھی نہیں رہی
شہرِ ستمگراں میں، پناہ ڈھونڈئیے کہیں
شہرِ اماں میں، جائے اماں بھی نہیں رہی
اُس کے لبوں پہ، میری محبت کے واسطے
اِنکار بھی نہیں تھا، تو ہاں بھی نہیں رہی
رسمِ وفا تو اگلے زمانوں کی بات ہے
اب اپنے بیچ، رسمِ جہاں بھی نہیں رہی
حیدر اب اپنی عادتیں، اَطوار، ٹھیک کر
ابا بھی چل بسے، تری ماں بھی نہیں رہی