جب سے تری الفت میں گرفتار ہوا ہوں
میں لوگوں کی نظروں میں گنہگار ہوا ہوں
ہر شخص کی تنقید میں شامل ہے مرا نام
یاروں میں بھی رسوا سر_بازار ہوا ہوں
یہ فخر تو حاصل ہے کے ہر ظلم کے آگے
میں سیسہ پلائ ہوئ دیوار ہوا ہوں
الجھن میں اگر دیکھ کسی کو لیا میں نے
پہلے پہل اس کا میں ہی غمخوار ہوا ہوں
رستہ مرا کیوں ٹوکتی پھرتی ہے مصیبت
جاناں میں تیرا جب سے طلبگار ہوا ہوں
جب بھی کسی ظالم سے ہوا سامنا باقرؔ
مظلوم کے ہاتھوں کی میں تلوار ہوا ہوں