جب سے قریب ہو کے چلے زندگی سے ہم
خود اپنے آئنے کو لگے اجنبی سے ہم
کچھ دور چل کے راستے سب ایک سے لگے
ملنے گئے کسی سے مل آئے کسی سے ہم
اچھے برے کے فرق نے بستی اجاڑ دی
مجبور ہو کے ملنے لگے ہر کسی سے ہم
شائستہ محفلوں کی فضاؤں میں زہر تھا
زندہ بچے ہیں ذہن کی آوارگی سے ہم
اچھی بھلی تھی دنیا گزارے کے واسطے
الجھے ہوئے ہیں اپنی ہی خود آگہی سے ہم
جنگل میں دور تک کوئی دشمن نہ کوئی دوست
مانوس ہو چلے ہیں مگر بمبئی سے ہم