جب کبھی ان کی توجہ میں کمی پائی گئی
از سر نو داستان شوق دہرائی گئی
بک گئے جب تیرے لب پھر تجھ کو کیا شکوہ اگر
زندگانی بادہ و ساغر سے بہلائی گئی
اے غم دنیا تجھے کیا علم تیرے واسطے
کن بہانوں سے طبیعت راہ پر لائی گئی
ہم کریں ترک وفا اچھا چلو یوں ہی سہی
اور اگر ترک وفا سے بھی نہ رسوائی گئی
کیسے کیسے چشم و عارض گرد غم سے بجھ گئے
کیسے کیسے پیکروں کی شان زیبائی گئی
دل کی دھڑکن میں توازن آ چلا ہے خیر ہو
میری نظریں بجھ گئیں یا تیری رعنائی گئی
ان کا غم ان کا تصور ان کے شکوے اب کہاں
اب تو یہ باتیں بھی اے دل ہو گئیں آئی گئی
جرأت انساں پہ گو تادیب کے پہرے رہے
فطرت انساں کو کب زنجیر پہنائی گئی
عرصۂ ہستی میں اب تیشہ زنوں کا دور ہے
رسم چنگیزی اٹھی توقیر دارائی گئی