یہ نہ سوچ کہ کتنی ہے اس کی باتوں میں بغاوت
آنکھوں سے چھلکتی ہے اسکی اپنوں کی سخاوت
ناراض نہیں ہوں میں اس جبر مسلسل سے احسن
اک لمبی کہانی ہے یہ محبت سے عداوت
بارش کی نسبت مجھ پر غم ٹوٹ کے برسے تھے
ڈوبتی ہوئی کشتی میں کھڑا ہو کر لکھتا ہوں حکایت
ایسا ہے ہمدرد زمانہ جو مجھ سے وابستہ ہے
ہر زخم پہ کہتا ہے کر اک اور شکایت
تخلیق میری ہے یا کوئی افسانہ مجنوں ہے
اک عام سا شاعر ہوں جو لکھتا ہے روایت