زندگی کو میں کھو نہیں سکتی
جدا تجھ سے جو ہو نہیں سکتی
شور برپا ہے ہجرتوں کا یہاں
ایسے عالم میں سو نہیں سکتی
غم کی آنکھوں میں کرچیاں ہیں مگر
یہ بھی سچ ہے کہ رو نہیں سکتی
جس میں نفرت کے تیر شامل ہوں
وہ محبت تو ہو نہیں سکتی
زندگانی کی چار سانسوں میں
حسرتیں تو پرو نہیں سکتی
یہ غبارہ ہے زندگی کا میاں
اس میں کانٹے چبھو نہیں سکتی
لاکھ دریا ہے آنکھ میں لیکن
وشمہ پلکیں بھگو نہیں سکتی