باندھ کے پتھر جدائی کا مجھے اڑا دیا
ہاتھوں میں ہاتھ تھما کے پھر تنہا کر دیا
پکار کر کہتے ہو لمبی عمر ہو تمھاری
درد بھی خوب دیا ,یہ ہنر بھی سکھا دیا
شور اتنا تھا خاموشی سنتا نہیں کوئی
ہم پکارے تھے یوں,کہ قبرستاں بنا دیا
اپنے درد سے وفا کی صورت میں وہ
زندگی سے بچھڑنے کی دعا دے گیا
مت چھیڑو اس بے وفا کے قصے
آنسو وفا کا تھا ,جو بن مول بہا دیا
تھما دیتے گر چاند ,تاروں کی تمنا کی ہوتی
کاش دل کے ساتھ روح کو بھی جدا کیا ہوتا
ابھی سازش سے فرصت نہیں تمہیں
میرے مرنے پہ آنے کا وعدہ ہی کیا ہوتا