تصورِ آرزو ُ میں وہ عکس، سو دھندلا سا لگا تھی موتِ بشر حقیقت، مگر سپنا سا لگا یوں یکایک بھی بھلا کوئی بچھڑتا ہے کسی سے؟ مانا تو ہے مگر یہ سچ، جھوٹا سا لگا