وہ جدا جب مجھ سے ہوا تھا
رب جانے کیا مجھے ہوا تھا
کچھ پایا تھا کچھ کھویا تھا
جو پیار کا بیج بویا تھا
وہ فصل صدا لہرا نہ سکی
دل خون کے آنسو رویا تھا
آنکھوں میں اندھیرے آ گئے تھے
یادوں کے بادل چھا گئے تھے
پھر ہجر کا موسم منڈلانے لگا
تب آنکھ میں آنسو آ گئے تھے
میں کیسے بھلاتا اس شخص کے
جو نقش دل میں سما گئے تھے
یادوں کے بکھیڑے آنے لگے
پھر بچھڑے ہوئے لوگ ستانے لگے
میں بھولنا چاھتا تھا جن کو
وہ اور بھی یاد آنے لگے
نئے دوست بنا کر خوش ہے وہ
یہ اڑتے ہوئے پنچھی بتانے لگے
غم ساری عمر کا اک ہی تھا
میرے اپنے ہی مجھے جلانے لگے
ملی پیار کی غلطی پر یہ کلیمَ کو سزا
کہ جنازہ بھی غیر اٹھانے لگے