بچھڑ کر اب ہر پل جدائی مار دیتی ہے
تیری یاد سے بچ جاؤں تنہائی مار دیتی ہے
اگر وفا ملے تو زندگی بھی جنت لگتی ہے
پاگل کر دیتی ہے بے وفائی مار دیتی ہے
وقت مقرر ہے واپس لوٹ جانے کا مگر
موت سے پہلے درد کی گہرائی مار دیتی ہے
سنا ہے آجکل اسے مسیحا کہتے ہیں لوگ
کہتے ہیں کہ جو وہ دے دوائی مار دیتی ہے
دور دور رہنے سے تعلق جلد بگڑتے نہیں
حد سے بڑھ جائے اگر شناسائی مار دیتی ہے
دل نہ توڑنا کبھی مجھے ایک دیوانے نے کہا
ٹوٹے دل سے نکلی ہوئی دہائی مار دیتی ہے
میری دنیا میں نہ آنا آج کے بعد کبھی تم
چرب زبان ہونے کی اکثر برائی مار دیتی ہے
دکھوں کے دشت میں بھٹکتے رہے سدا اظہر
جہاں بھی سن لوں شہنائی مار دیتی ہے