بیچ منجدھار میں جو دغا دے گئے
وقت رخصت وہ کیوں بدعا دے گئے
ہم کو پہلے ہی اسکی خبر تھی مگر
اپنی دانست میں وہ سزا دے گئے
راہ کی تنہائی نے زندگی بخش دی
ہم کو جینے کا وہ حوصلہ دے گئے
جاں بہ لب جذبہ سخت کوشی کو وہ
جاتے جاتے نئی وہ جلا دے گئے
مندمل کب ہوئے تھے وہ زخم جگر
ڈال کر وہ نمک کیا صلہ دے گئے
شکریہ انکا اشہر ادا کیسے ہو
وہ جو بن مانگے ہم کو جزا دے گئے