جس مقام جس شئے پر مرے نام کی تختی لگی
درپیش معاملات میں اسے بھی سختی لگی
سوچتا ھوں، قدرت کا تو نہیں اس میں عمل دخل
دیکھتا ھوں تو اپنے عمل میں ھی کم بختی لگی
کوسوں نصیب کو تو کیوں نہ دیکھو خود سے کمتر
الجھنیں جن کی دیکھ کر اپنی تو قدرے سستی لگی
جوانی اب ڈھلنے کو ھے عارف، آ اب بھی توبہ کر لے
دل کو آخر میں راہ فقط یہی ایک ھی نیک بختی لگی