جس وقت، جدھر چاہیں، اُڑائیں تیری یادیں
میں زرد سا پتا ہوں ہوائیں تیری یادیں
میں نے تجھے چاہا تھا، میرا جرم یہی ہے
دیتی ہیں مگر سخت سزائیں تیری یادیں
جو ایک تعلق ہے نبھانا ہی پڑے گا
اب مجھ کو رُلائیں یا ہنسائیں تیری یادیں
اُکتا کے میرے گھر کے اندھیروں سے کسی دِن
تنہا ہی کہیں چھوڑ نہ جائیں تیری یادیں
سُن لوں جو میں اک بار تیرا نام کسی سے
پھر دیر تلک مجھ کو رُلائیں تیری یادیں
اُس کو بھی تو احساسِ زیاں ہو کسی صورت
شمشیر کبھی اُس کو بھی آئیں تیری یادیں