جس کو چاہا وہی خطا ہے وفا کچھ بھی نہیں
ایسا لگتا ہے میرے پاس اب رہا کچھ بھی نہیں
یوں بھی اَس نےمجھے پریشان کر رکھا ہے بہت
سن کے میری ہر بات جیسے سنا کچھ بھی نہیں
بہت ہی ویران سی ہو گیی ہے زندگی تو اب میری
جب سے چھوڑ گیا میرے پاس بچا کچھ بھی نہیں
سوچا نہیں اچھا بُرا دیکھا سُنا کچھ بھی نہیں
مانگا خدا سے ہر وقت تیرے سوا کچھ بھی نہیں
دیکھا تجھے چاہا تجھے سوچا تجھے پوجا تجھے
میری وفا میری خطا تیری خطا تو کچھ بھی نہیں
جس پر ہماری آنکھوں نے موتی بچھائے رات بھر
بھیجا وہی کاغذ اسے ہم نے لکھا کچھ بھی نہیں
ایک شام کی دہلیز پر بیھٹے رہے وہ دیر تک اپنی
آنکھوں سے کی باتیں منہ سے کہا کچھ بھی نہیں
دو چار دن کی بات ہے اب دل خاک میں مل جائے گا
آگ پہ جب کاغذ رکھا تو باقی بچا کچھ بھی نہیں