صحراؤں کی وادی ہو کہیں گلستاں نہ ہو
پھولوں کا جوشبوؤں کا کوئی کارواں نہ ہو
افلاک کی ویرانی میں تنہا پھرے حیات
تاروں کا بہاروں کا کوئی رازداں نہ ہو
افکار کے اطراف میں چھایا رہے دھواں
تقدیر کی کتاب میں معنی رواں نہ ہو
اویس کے قدموں کو ترستی رہے جنت
بلال کی آواز میں سوز اذاں نہ ہو
نہ ہو اگر مٹھاس نہاں اس وجود کی
کچھ لطف زندگی کا کسی پر عیاں نہ ہو
حدت ہو لوہو گرمی کا اک حشر بپا ہو
انسان کے اورآگ کے کچھ درمیاں نہ ہو
مٹی کی مورتیں ہوں صنم خانہ ہو عالم
انسان کے پتلے میں کہیں روح ۔ جاں نہ ہو
شدت کی دھوپ میں ہو پریشان راہ زیست
بے لوث دعاؤں کا کوئی سائباں نہ ہو
اس ایک لفظ ۔ ماں ۔ میں ہےہر ذات کا وجود
اس گھر کو کیسے گھر کہوں جس گھر میں ماں نہ ہو
ماؤں کا کوئی ایک دن مخصوص نہیں کیا جا سکتا ۔ سال کے تین سو پینسٹھ دن اور زندگی کا ہر دن مدرز ڈے ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔