جسم کے دام کفن کو خرید کہ جس نے یہ زانی کا داغ رکھا ہے
اس نے پتا نہیں کتنے ہی لوگوں کی آبرو کا یہ سراغ رکھا ہے
ایک لقب ملا ہے یہ یتیم ہونے پہ اور ایسا لقب ملا مجھ کو
ہاں مرے پاس یہ آبرو ہے جسے میں نے بنا کے چراغ رکھا ہے
ایسے ڈرے ہیں ہم اور ہمارے رقیب زمانےکی چال سے کہ
بازوں میں قوتِ دم ہے مگر ہم نے ساتھ میں یہ چماغ رکھا ہے
یہ مجھے ورثے میں ایسی زمینیں مل رہی ہیں کہ کیا کہوں اب میں
اشک ہیں پلکوں پہ یوں اور ان میں بھی زہر کا خاص سراغ رکھا ہے
اتنی ہے آرزو جینے کی , روز غموں کا پیالہ لے کر بھی میں عافی
یہ مرے جسم کی ان رگوں نے جینےکا بڑا اچھا دماغ رکھا ہے