جل رہا ہے گھر مرا تم کو دھواں کیسا لگا ؟
اُٹھ رہی ہے کِس قدر آہ و فغاں کیسا لگا ؟
نفرتوں کی آگ کو بھڑکانے والو سچ کہو
جسم اپنا خاک و خوں کے درمیاں کیسا لگا ؟
زندگی کے اُونچے نیچے راستوں کو دیکھ کر
یہ زمیں کیسی لگی ، وہ آسماں کیسا لگا ؟
جم گیٔ چہرے پہ میرے دُھول گُذرے وقت کی
میری بربادی کا تم کو یہ نشاں کیسا لگا ؟
اپنے ہاتھوں سے جلا کر آج اپنا آشیاں
ڈھونڈتے پھرتے ہو اب جاۓ اماں کیسا لگا ؟
دوسروں کے درد کو تم نے نہ سمجھا تھا کبھی
آج اپنے غم کا بحرِ بے کراں کیسا لگا ؟
چھوڑ کر سب کچھ جہاں اِک روز جانا ہے ہمیں
وہ جہاں تو اور ہوگا ، یہ جہاں کیسا لگا ؟