جلنا بندگی میری اور تڑپنا عبادت میری
ہوتی ہے یوں کانٹوں پہ بسر رات میری
غم اس سے بڑھ کر کیا ہو گا دل کو
کہ تم سے اب تک ہے وابستہ ذات میری
نیند کے انتظار میں رہتا ہوں بے قرار میں
درد کی آغوش میں سو گئی قسمت میری
ہر شخص کی ہے آرزو ملے خضرِ حیات اور یہاں
مرنے کی تمنا میں بڑھ رہ ہے حیات میری