جن سے ملنے کی تمنا ہے وہ ملتے ہی نہیں
پھول خواہش کے چمن میں کبھی کھلتے ہی نہیں
کس نے دیکھا ہے شب غم میں پریشان ہونا
یہ المناک سے پل آج گزرتے ہی نہیں
نہ سنا ہم کو اے صبا شوخی گل کے افسانے
ایسا گھائل ہے دل بیتاب کہ زخم سلتے ہی نہیں
یوں تو دنیا میں ہر اک لمحہ تغیر ہے مگر
دل میں بس جاتے ہیں جو منظر تو پھر بدلتے ہی نہیں
محفلوں میں نہ ہی تنہائی میں ہے قرار ہمیں
دل کے ارمان سنبھالے سے سنبھلتے ہی نہیں
ہے میرا حوصلہ اے دوست کہ ابھی زندہ ہوں میں
ڈوب کر ایسے سفینے تو پھر ابھرتے ہی نہیں
دل کا سودا جو کرے دل تو اسے دل نہ سمجھ
دل کے سودائی تو اپنی زباں بدلتے ہی نہیں
کون کس پہ لٹائے گا متاع دل ناصر
فیصلہ حسن کے منصف تو کبھی کرتے ہی نہیں