جن کی حسرت میں دل رسوا نے غم کھائے بہت
سنگ ہم پر ان دریچوں نے ہی برسائے بہت
روشنی معدوم گہرے ہو چلے سائے بہت
جانے کیوں تم آج کی شب مجھ کو یاد آئے بہت
قسمت اہل قفس پھولوں کی خوشبو بھی نہیں
یوں تو گلشن میں صبا نے پھول مہکائے بہت
لوگ اس کو بھی اگر کہتے ہیں تو کہہ لیں بہار
مسکرائے کم شگوفے اور مرجھائے بہت
ایک آنسو بھی گرے تو گونج اٹھتی ہے زمیں
آج تو ہم اپنی تنہائی سے گھبرائے بہت
ایک رسم سرفروشی تھی سو رخصت ہو گئی
یوں تو دیوانے ہمارے بعد بھی آئے بہت
عشرت ہستی پہ تھی مہتابؔ دنیا کی نظر
دل کو کیا کہیے کہ اس نے درد اپنائے بہت