آتشِ نمرود سے نکلا ہوں پرستشِ توحید کر کے شکن صنم کیے ہیں ایمانِ نوید کر کے دستِ تراشہ ہو صنم تو خدا کیوں کر ہو صنمِ رسوا کرتا ہوں تجربہ جدید کر کے آزمائش اہل و عیال ہو سر بخم ہو پیغمبرِ خدا اپنوں کو پرکھتا ہے خدا یوں بھی وحید کر کے